کھل کے ملنے کا سلیقہ آپ کو آتا نہیں
اور میرے پاس کوئی چور دروازہ نہیں
وہ سمجھتا تھا اسے پا کر ہی میں رہ جاؤں گا
اس کو میری پیاس کی شدت کا اندازہ نہیں
جا دکھا دنیا کو مجھ کو کیا دکھاتا ہے غرور
تو سمندر ہے تو ہے میں تو مگر پیاسا نہیں
کوئی بھی دستک کرے آہٹ ہو یا آواز دے
میرے ہاتھوں میں مرا گھر تو ہے دروازہ نہیں
اپنوں کو اپنا کہا چاہے کسی درجے کے ہوں
اور جب ایسا کیا میں نے تو شرمایا نہیں
اس کی محفل میں انہیں کی روشنی جن کے چراغ
میں بھی کچھ ہوتا تو میرا بھی دیا ہوتا نہیں
تجھ سے کیا بچھڑا مری ساری حقیقت کھل گئی
اب کوئی موسم ملے تو مجھ سے شرماتا نہیں
غزل
کھل کے ملنے کا سلیقہ آپ کو آتا نہیں
وسیم بریلوی