کھل گئیں آنکھیں کہ جب دنیا کا سچ ہم پر کھلا
اپنے اندر سب کھلے ہیں کون ہے باہر کھلا
قتل سے پہلے ذرا چیخوں پہ اک مقتول کی
کچھ دریچے تو کھلے لیکن نہ کوئی در کھلا
تنگ ہو جائے زمیں بھی اب تو کوئی غم نہیں
ہم فقیروں کے لئے ہے آسماں سر پر کھلا
آدمی کے ظاہر و باطن میں کتنا فرق ہے
آج دوران مسافت ہم پہ یہ منظر کھلا
دو دعائیں شاہ کو جن کے زمانے میں ظفرؔ
وہ پذیرائی ہوئی غالبؔ کا ہر جوہر کھلا
غزل
کھل گئیں آنکھیں کہ جب دنیا کا سچ ہم پر کھلا
ظفر کلیم