خودی میرا پتہ دیتی ہے اب بھی
مجھے مجھ سے ملا دیتی ہے اب بھی
گزشتہ موسموں کی نرم خوشبو
تعلق کا پتہ دیتی ہے اب بھی
کبھی رہ رہ کے اک گمنام خواہش
سفر کا حوصلہ دیتی ہے اب بھی
یہ آوارہ مزاجی دشت جاں میں
نیا جادو جگا دیتی ہے اب بھی
امید صبح نو ہر شام غم میں
تھکن ساری مٹا دیتی ہے اب بھی
چمک خوش رنگ لہجے کی تمہارے
نئی شمعیں جلا دیتی ہے اب بھی
غزل کے دل ربا لہجے کی شوخی
سخن کا سلسلہ دیتی ہے اب بھی

غزل
خودی میرا پتہ دیتی ہے اب بھی
سعید عارفی