EN हिंदी
خودی میرا پتہ دیتی ہے اب بھی | شیح شیری
KHudi mera pata deti hai ab bhi

غزل

خودی میرا پتہ دیتی ہے اب بھی

سعید عارفی

;

خودی میرا پتہ دیتی ہے اب بھی
مجھے مجھ سے ملا دیتی ہے اب بھی

گزشتہ موسموں کی نرم خوشبو
تعلق کا پتہ دیتی ہے اب بھی

کبھی رہ رہ کے اک گمنام خواہش
سفر کا حوصلہ دیتی ہے اب بھی

یہ آوارہ مزاجی دشت جاں میں
نیا جادو جگا دیتی ہے اب بھی

امید صبح نو ہر شام غم میں
تھکن ساری مٹا دیتی ہے اب بھی

چمک خوش رنگ لہجے کی تمہارے
نئی شمعیں جلا دیتی ہے اب بھی

غزل کے دل ربا لہجے کی شوخی
سخن کا سلسلہ دیتی ہے اب بھی