خودی کی فطرت زریں کے راز ہائے دروں
ادا شناس حقیقت ملے کوئی تو کہوں
خودی اگر ہے تو ہیں سرخ رو حیات و ممات
خودی نہیں تو حیات و ممات خوار و زبوں
خودی وہ چیز ہے ناداں کہ جس کے بدلے میں
ملے جو دولت کونین بھی مجھے تو نہ لوں
علامتیں ہیں یہ سب ایک مرد کامل کی
خلوص روح و یقین تمام و سوز دروں
سمجھ سکا نہ سمجھ کر بھی آج تک کوئی
یہ آب و گل کا فسانہ یہ آب و گل کا فسوں
مری نظر میں ہے راز درون میخانہ
مگر یہ سوچ رہا ہوں کہوں تو کس سے کہوں
جنہیں تلاش سکوں ہے انہیں یہ کیا معلوم
کہ ایک محشر خاموش ہے جہان سکوں
غزل
خودی کی فطرت زریں کے راز ہائے دروں
آرزو سہارنپوری