EN हिंदी
خودی کی فطرت زریں کے راز ہائے دروں | شیح شیری
KHudi ki fitrat-e-zarrin ke raaz-ha-e-darun

غزل

خودی کی فطرت زریں کے راز ہائے دروں

آرزو سہارنپوری

;

خودی کی فطرت زریں کے راز ہائے دروں
ادا شناس حقیقت ملے کوئی تو کہوں

خودی اگر ہے تو ہیں سرخ رو حیات و ممات
خودی نہیں تو حیات و ممات خوار و زبوں

خودی وہ چیز ہے ناداں کہ جس کے بدلے میں
ملے جو دولت کونین بھی مجھے تو نہ لوں

علامتیں ہیں یہ سب ایک مرد کامل کی
خلوص روح و یقین تمام و سوز دروں

سمجھ سکا نہ سمجھ کر بھی آج تک کوئی
یہ آب و گل کا فسانہ یہ آب و گل کا فسوں

مری نظر میں ہے راز درون میخانہ
مگر یہ سوچ رہا ہوں کہوں تو کس سے کہوں

جنہیں تلاش سکوں ہے انہیں یہ کیا معلوم
کہ ایک محشر خاموش ہے جہان سکوں