خودی کے زعم میں ایسا وہ مبتلا ہوا ہے
جو آدمی بھی نہیں تھا وہ اب خدا ہوا ہے
وہ کہہ رہا تھا بجھائے گا پیاس صحرا کی
مرا اک ابر کے ٹکڑے سے رابطہ ہوا ہے
تمہارا طرز بیاں خوب ہے مگر صاحب
یہ قصہ میں نے ذرا مختلف سنا ہوا ہے
یہ مٹی پاؤں مرے چھوڑتی نہیں ورنہ
فلک کا راستہ بھی سامنے پڑا ہوا ہے
اسی کے ہاتھ پہ بیعت میں کر کے آیا ہوں
جو بوڑھا پیڑ کڑی دھوپ میں کھڑا ہوا ہے
خراج مانگتا ہے مجھ سے یہ بدن میرا
کہ لوح دل پہ ترا نام بھی لکھا ہوا ہے
وہ مجھ کو دیکھ کے رستہ بدل گیا ارشدؔ
ذرا سی دیر میں اس کو یہ جانے کیا ہوا ہے
غزل
خودی کے زعم میں ایسا وہ مبتلا ہوا ہے
ارشد محمود ارشد