خدا شناس بہت ہم بھی تھے مگر اب کے
وہ مار دل پہ پڑی ہے خدا کو بھول گئے
بس ایک چشم زدن میں گزر گئی دنیا
بڑے جتن تھے اسی عمر یک نفس کے لیے
وہ شکل سامنے رہتی ہے کچھ نہیں کہتی
ترس گیا ہوں بہت لذت سخن کے لیے
فراق دیدہ و جاں دل سمجھ نہیں پاتا
فرار دیدہ و دل تو ہی اب تسلی دے
غزل
خدا شناس بہت ہم بھی تھے مگر اب کے
محمود ایاز