خدا سے اسے مانگ کر دیکھتے ہیں
پھر اپنی دعا کا اثر دیکھتے ہیں
ہمیں ہیں مسافر ہمیں آبلہ پا
تماشہ اے گرد سفر دیکھتے ہیں
فقیری فقیری فقیری فقیری
نہ جنت نہ دنیا نہ گھر دیکھتے ہیں
ادھر آ اے حسن تمنا ادھر آ
نظر بھر تجھے اک نظر دیکھتے ہیں
کسی عکس میں اب وہ باندھیں گے مجھ کو
چرا کر نظر شیشہ گر دیکھتے ہیں
نہ جانے کہاں مٹ گئے نقش جاں
چلو آج پھر سوچ کر دیکھتے ہیں
ہمارے ہی گھر سے نکلتا ہے اکثر
جسے لوگ شام و سحر دیکھتے ہیں
کڑا امتحاں چاک پر تھا نظر کا
ابھی تک وہ رقص ہنر دیکھتے ہیں
غزل
خدا سے اسے مانگ کر دیکھتے ہیں
رینو نیر