EN हिंदी
خدا سے اسے مانگ کر دیکھتے ہیں | شیح شیری
KHuda se use mang kar dekhte hain

غزل

خدا سے اسے مانگ کر دیکھتے ہیں

رینو نیر

;

خدا سے اسے مانگ کر دیکھتے ہیں
پھر اپنی دعا کا اثر دیکھتے ہیں

ہمیں ہیں مسافر ہمیں آبلہ پا
تماشہ اے گرد سفر دیکھتے ہیں

فقیری فقیری فقیری فقیری
نہ جنت نہ دنیا نہ گھر دیکھتے ہیں

ادھر آ اے حسن تمنا ادھر آ
نظر بھر تجھے اک نظر دیکھتے ہیں

کسی عکس میں اب وہ باندھیں گے مجھ کو
چرا کر نظر شیشہ گر دیکھتے ہیں

نہ جانے کہاں مٹ گئے نقش جاں
چلو آج پھر سوچ کر دیکھتے ہیں

ہمارے ہی گھر سے نکلتا ہے اکثر
جسے لوگ شام و سحر دیکھتے ہیں

کڑا امتحاں چاک پر تھا نظر کا
ابھی تک وہ رقص ہنر دیکھتے ہیں