خدا رکھے تجھے میری برائی دیکھنے والے
وفاداری میں طرز بے وفائی دیکھنے والے
سنبھل اب نالۂ دل کی رسائی دیکھنے والے
قیامت ڈھائیں گے روز جدائی دیکھنے والے
ترے خنجر کو بھی تیری طرح حسرت سے تکتے ہیں
تری نازک کمر نازک کلائی دیکھنے والے
جھجک کر آئینہ میں عکس سے اپنے وہ کہتے ہیں
یہاں بھی آ گئے صورت پرائی دیکھنے والے
پلک جھپکی کہ دل غائب بغل خالی نظر آئی
تری نظروں کی دیکھیں گے صفائی دیکھنے والے
انہیں آنکھوں سے تو نے نیک و بد عالم کا دیکھا ہے
ادھر تو دیکھ اے ساری خدائی دیکھنے والے
گرے غش کھا کے جب موسیٰ کہا برق تجلی نے
قیامت تک نہ دے گا وہ دکھائی دیکھنے والے
مری میت پہ بن آئی ہے ان کی سب سے کہتے ہیں
وفاداروں کی دیکھیں بے وفائی دیکھنے والے
نظر ملتی ہے پیچھے پہلے تنتی ہیں بھنویں ان کی
کہاں تک دیکھے جائیں کج ادائی دیکھنے والے
مٹا انکار تو حجت یہ نکلی منہ دکھانے میں
کہ پہلے جمع کر دیں رونمائی دیکھنے والے
کہاں تک روئیں قسمت کے لکھے کو بس الٹ پردہ
تجھے دیکھیں گے اب تیری خدائی دیکھنے والے
کبھی قدموں میں تھا اب ان کے دل میں ہے جگہ میری
مجھے دیکھیں مقدر کی رسائی دیکھنے والے
کوئی اتنا نہیں جو آ کے پوچھے ہجر میں بیخودؔ
ترا کیا حال ہے رنج جدائی دیکھنے والے
غزل
خدا رکھے تجھے میری برائی دیکھنے والے
بیخود دہلوی