خدا پرست ہوئے نہ ہم بت پرست ہوئے
کسی طرف نہ جھکا سر کچھ ایسے مست ہوئے
جنہیں غرور بہت تھا نماز روزے پر
گئے جو قبر میں سارے وضو شکست ہوئے
غرور کر کے نگاہوں سے گر گئے مغرور
بلند جتنے ہوئے اتنے اور پست ہوئے
رہا خمار کے صدمہ سے چور شیشۂ دل
مگر نہ سائل مے تیرے مے پرست ہوئے
تڑپ دکھا نہ اسے بحرؔ ماہی دل کی
غضب ہوا جو وہ تار نگاہ شست ہوئے
غزل
خدا پرست ہوئے نہ ہم بت پرست ہوئے
امداد علی بحر