EN हिंदी
خدا نے لاج رکھی میری بے نوائی کی | شیح شیری
KHuda ne laj rakhi meri be-nawai ki

غزل

خدا نے لاج رکھی میری بے نوائی کی

اقبال اشہر

;

خدا نے لاج رکھی میری بے نوائی کی
بجھا چراغ تو جگنو نے رہنمائی کی

ترے خیال نے تسخیر کر لیا ہے مجھے
یہ قید بھی ہے بشارت بھی ہے رہائی کی

قریب آ نہ سکی کوئی بے وضو خواہش
بدن سرائے میں خوشبو تھی پارسائی کی

متاع درد ہے دل میں تو آنکھ میں آنسو
نہ روشنی کی کمی ہے نہ روشنائی کی

اب اپنے آپ کو قطرہ بھی کہہ نہیں سکتا
برا کیا جو سمندر سے آشنائی کی

اسے بھی شہ نے مصاحب بنا لیا اپنا
جس آدمی سے توقع تھی لب کشائی کی

وہی تو مرکزی کردار ہے کہانی کا
اسی پہ ختم ہے تاثیر بے وفائی کی