خدا نے لاج رکھی میری بے نوائی کی
بجھا چراغ تو جگنو نے رہنمائی کی
ترے خیال نے تسخیر کر لیا ہے مجھے
یہ قید بھی ہے بشارت بھی ہے رہائی کی
قریب آ نہ سکی کوئی بے وضو خواہش
بدن سرائے میں خوشبو تھی پارسائی کی
متاع درد ہے دل میں تو آنکھ میں آنسو
نہ روشنی کی کمی ہے نہ روشنائی کی
اب اپنے آپ کو قطرہ بھی کہہ نہیں سکتا
برا کیا جو سمندر سے آشنائی کی
اسے بھی شہ نے مصاحب بنا لیا اپنا
جس آدمی سے توقع تھی لب کشائی کی
وہی تو مرکزی کردار ہے کہانی کا
اسی پہ ختم ہے تاثیر بے وفائی کی
غزل
خدا نے لاج رکھی میری بے نوائی کی
اقبال اشہر