خدا معلوم کس کی چاند سے تصویر مٹی کی
جو گورستاں میں حسرت ہے گریباں گیر مٹی کی
نوازی سرفرازی روح نے تصویر مٹی کی
خوشا تالع خوشا قسمت خوشا تقدیر مٹی کی
حقیقت میں عجائب شعبدہ پرداز دنیا ہے
کہ جو انسان کی صورت تھا وہ ہے تصویر مٹی کی
جسے رویا میں دیکھا تھا ملایا خاک میں اس نے
مقدر نے ہمارے خواب کی تعبیر مٹی کی
مزاروں میں دکھا کر استخواں حسرت یہ کہتی ہے
کوئی پرساں نہیں ان کا یہ ہے توقیر مٹی کی
یہ ناحق برہمی ہے خاکساروں کے غباروں سے
خرابی آندھیوں نے کی ہے بے تقصیر مٹی کی
وہ وحشی تھا کہ مر کے بھی نہ میدان جنوں چھوٹا
مری میت رہی صحرا میں دامن گیر مٹی کی
نہ لی تربت کو گلشن میں جگہ لی بھی تو صحرا میں
ریاضت سب ہماری تو نے اے تقدیر مٹی کی
مرے صیاد نے جس جس جگہ تودہ بنایا تھا
وہاں جا جا کے بو لیتے پھرے نخچیر مٹی کی
ازل کے روز سے غش ہیں جو انساں خاکساری پر
سرشت ان کی ہے مٹی سے یہ ہے تاثیر مٹی کی
یہ عالم ہو گیا ہے جمتے جمتے گرد صحرائی
کہ مجنوں پوچھتا ہے کیا یہ ہے زنجیر مٹی کی
ہمارے خاک کے تودے کو نابود آ کے کر دیں گے
نشانی بھی نہ چھوڑیں گے تمہارے تیر مٹی کی
اجازت سے تمہاری گفتگو کی سنگریزوں نے
برابر سننے والوں نے سنی تقریر مٹی کی
گلی میں یار کی ایسے ہوئے ہو گرد آلودہ
کہ بالکل ہو گئے ہو اے شرفؔ تصویر مٹی کی
غزل
خدا معلوم کس کی چاند سے تصویر مٹی کی
آغا حجو شرف