خدا کو ڈھونڈ رہا تھا کہیں خدا نہ ملا
زہے نصیب کہ بندے کو مدعا نہ ملا
نگاہ شوق میں بے نوریوں کا رنگ بڑھا
نگاہ شوق کو جب کوئی دوسرا نہ ملا
ہم اپنی بے خودیٔ شوق پر نثار رہے
خودی کو ڈھونڈھ لیا جب ہمیں خدا نہ ملا
تمہاری بزم میں لب کھول کر ہوا خاموش
وہ بد نصیب جسے کوئی آسرا نہ ملا
ہر ایک ذرہ میں میں خود تو آ رہا تھا نظر
عجیب بات تمہارا کہیں پتہ نہ ملا
بس اک سکون ہی ہم کو نہ مل سکا تا عمر
وگرنہ تیرے تصدق میں ہم کو کیا نہ ملا
تری نگاہ محبت نواز ہی کی قسم
کہ آج تک تو ہمیں تجھ سا دوسرا نہ ملا
ترا جمال فضاؤں میں منتشر تھا مگر
نگاہ شوق کو پھر بھی ترا پتہ نہ ملا
ہزار ٹھوکریں کھائیں ہزار سو بہزادؔ
جہان حسن میں کوئی بھی با وفا نہ ملا
غزل
خدا کو ڈھونڈ رہا تھا کہیں خدا نہ ملا
بہزاد لکھنوی