خدا کے واسطے اب بے رخی سے کام نہ لے
تڑپ کے پھر کوئی دامن کو تیرے تھام نہ لے
بس ایک سجدۂ شکرانہ پائے ساقی پر
یہ مے کدہ ہے یہاں پر خدا کا نام نہ لے
وفا تو کیسی جفا بھی نہیں ہے اب ہم پر
اب اتنا سخت محبت سے انتقام نہ لے
زمانے بھر میں ہیں چرچے مری تباہی کے
میں ڈر رہا ہوں کہیں کوئی تیرا نام نہ لے
مٹا دو شوق سے مجھ کو مگر کہیں تم سے
زمانہ میری تباہی کا انتقام نہ لے
میں جانوں جب کہ بجھا دے تو تشنگی دل کی
وگرنہ آج سے دریا دلی کا نام نہ لے
نہیں وہ حسن جو عاشق کو شاد کام کرے
نہیں وہ عشق جو ناکامیوں سے کام نہ لے
رکھوں امید کرم اس سے اب میں کیا ساحرؔ
کہ جب نظر سے بھی ظالم مرا سلام نہ لے

غزل
خدا کے واسطے اب بے رخی سے کام نہ لے
ساحر بھوپالی