EN हिंदी
خدا کرے کہ یہ مٹی بکھر بھی جائے اب | شیح شیری
KHuda kare ki ye miTTi bikhar bhi jae ab

غزل

خدا کرے کہ یہ مٹی بکھر بھی جائے اب

فاروق بخشی

;

خدا کرے کہ یہ مٹی بکھر بھی جائے اب
چڑھا ہوا ہے جو دریا اتر بھی جائے اب

یہ روز روز کا ملنا بچھڑنا کھلتا ہے
وہ میری روح کے اندر اتر بھی جائے اب

وہاں وہ پھول سا چہرہ ہے منتظر اس کا
کہو یہ شاعر آوارہ گھر بھی جائے اب

میں اپنے آپ کو کب تک یونہی سمیٹے پھروں
چلے وہ آندھی کہ سب کچھ بکھر بھی جائے اب

اسی کی وجہ سے سارے وبال ہیں فاروقؔ
بدن کا قرض ادا ہو یہ سر بھی جائے اب