خدا کرے کہ یہ مٹی بکھر بھی جائے اب
چڑھا ہوا ہے جو دریا اتر بھی جائے اب
یہ روز روز کا ملنا بچھڑنا کھلتا ہے
وہ میری روح کے اندر اتر بھی جائے اب
وہاں وہ پھول سا چہرہ ہے منتظر اس کا
کہو یہ شاعر آوارہ گھر بھی جائے اب
میں اپنے آپ کو کب تک یونہی سمیٹے پھروں
چلے وہ آندھی کہ سب کچھ بکھر بھی جائے اب
اسی کی وجہ سے سارے وبال ہیں فاروقؔ
بدن کا قرض ادا ہو یہ سر بھی جائے اب

غزل
خدا کرے کہ یہ مٹی بکھر بھی جائے اب
فاروق بخشی