خدا کا شکر ہے گرداب سے نکل آیا
میں اس کے حلقۂ احباب سے نکل آیا
سجی ہوئی تھیں دکانیں منافقت کی جہاں
میں ایسے قریۂ بے خواب سے نکل آیا
بہت دنوں سے حصار طلسم خواب میں تھا
طلسم ٹوٹ گیا خواب سے نکل آیا
عطا ہوئی ہے محبت کی سلطنت جب سے
میں شہر دیدۂ خوں ناب سے نکل آیا
کبھی گلاب سے آنے لگی مہک اس کی
کبھی وہ انجم و مہتاب سے نکل آیا
انا کی ناؤ جہاں ڈولتی پھرے محبوبؔ
میں اس فریب کے سیلاب سے نکل آیا
غزل
خدا کا شکر ہے گرداب سے نکل آیا
محبوب ظفر