خدا جانے کہاں ہے اصغرؔ دیوانہ برسوں سے
کہ اس کو ڈھونڈھتے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے
تڑپنا ہے نہ جلنا ہے، نہ جل کر خاک ہونا ہے
یہ کیوں سوئی ہوئی ہے فطرت پروانہ برسوں سے
کوئی ایسا نہیں یا رب کہ جو اس درد کو سمجھے
نہیں معلوم کیوں خاموش ہے دیوانہ برسوں سے
کبھی سوز تجلی سے اسے نسبت نہ تھی گویا
پڑی ہے اس طرح خاکستر پروانہ برسوں سے
ترے قربان ساقی اب وہ موج زندگی کیسی
نہیں دیکھی ادائے لغزش مستانہ برسوں سے
مری رندی عجب رندی مری مستی عجب مستی
کہ سب ٹوٹے پڑے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے
حسینوں پر نہ رنگ آیا نہ پھولوں میں بہار آئی
نہیں آیا جو لب پر نغمۂ مستانہ برسوں سے
کھلی آنکھوں سے ہوں حسن حقیقت دیکھنے والا
ہوئی لیکن نہ توفیق در بت خانہ برسوں سے
لباس زہد پر پھر کاش نذر آتش صہبا
کہاں کھوئی ہوئی ہے جرأت رندانہ برسوں سے
جسے لینا ہو آ کر اس سے اب درس جنوں لے لے
سنا ہے ہوش میں ہے اصغرؔ دیوانہ برسوں سے
غزل
خدا جانے کہاں ہے اصغرؔ دیوانہ برسوں سے
اصغر گونڈوی