خدا ہوا نہ کوئی اور ہی گواہ ہوا
لکھا جو حرف تو ہونے کا اشتباہ ہوا
نواح عشق تلک کھینچتی گئی خوشبو
اک ایسا گل مری سانسوں پہ افتتاح ہوا
یہ کیا ہوس ہے کہ ملتا مجھے زیادہ وہ
مرے لیے تو وہ اتنا بھی بے پناہ ہوا
عجیب کیا ہے کہ تم سے نہیں نبھی میری
مرا تو خود سے بھی کم ہی کبھی نباہ ہوا
کبھی کبھی ترے دل تک پہنچ گیا مرا درد
کبھی ہوا تو یہی عشق میں گناہ ہوا
کسی بھی رنگ میں کھنچتی نہ تھی مری تصویر
میں بن گیا کوئی کاغذ اگر سیاہ ہوا

غزل
خدا ہوا نہ کوئی اور ہی گواہ ہوا
سید کاشف رضا