خدا ہی پہنچے فریادوں کو ہم سے بے نصیبوں کے
ہمارے دل کباب اور تو پئے پیالے رقیبوں کے
خزاں میں برگ گل اور خار و خس نہیں صحن گلشن میں
پڑے ہیں لخت دل اور ٹوٹے نالے عندلیبوں کے
بہار آئی دوانو سنتے ہو بلبل کی فریادیں
یہ آوازے ہیں فوج موسم گل کے نقیبوں کے
الٰہی دے نگاہ لطف خوش چشموں کو اک پل بھی
کہ ہم بیمار مر گئے ناز اٹھاتے ان طبیبوں کے
نگیں کے طرز پھر جاتا ہے نام عزلتؔ اس لب پر
اثر میں بے سخن میرے ہیں برگشتہ نصیبوں کے

غزل
خدا ہی پہنچے فریادوں کو ہم سے بے نصیبوں کے
ولی عزلت