EN हिंदी
خدا ہی پہنچے فریادوں کو ہم سے بے نصیبوں کے | شیح شیری
KHuda hi pahunche fariyaadon ko humse be-nasibon ke

غزل

خدا ہی پہنچے فریادوں کو ہم سے بے نصیبوں کے

ولی عزلت

;

خدا ہی پہنچے فریادوں کو ہم سے بے نصیبوں کے
ہمارے دل کباب اور تو پئے پیالے رقیبوں کے

خزاں میں برگ گل اور خار و خس نہیں صحن گلشن میں
پڑے ہیں لخت دل اور ٹوٹے نالے عندلیبوں کے

بہار آئی دوانو سنتے ہو بلبل کی فریادیں
یہ آوازے ہیں فوج موسم گل کے نقیبوں کے

الٰہی دے نگاہ لطف خوش چشموں کو اک پل بھی
کہ ہم بیمار مر گئے ناز اٹھاتے ان طبیبوں کے

نگیں کے طرز پھر جاتا ہے نام عزلتؔ اس لب پر
اثر میں بے سخن میرے ہیں برگشتہ نصیبوں کے