خود سے اس نے نجات پا لی ہے
راہ نونیتؔ نے نکالی ہے
خشک آنکھوں کے آس پاس کہیں
دل نے اک جھیل سی بنا لی ہے
لہلہاتے ہیں درد کے پودے
عشق کا باغ، یاد مالی ہے
روند جاتا ہے یہ کناروں کو
اسے دریا کہیں؟ موالی ہے
ایک تصویر کو ہٹایا بس
دل کی دیوار خالی خالی ہے
آپ کا نام بھی نہیں لیتے
پیاس ہونٹوں پہ اب سجا لی ہے
اے تھکن کچھ تو بول، کیا تو نے
منزلوں میں جگہ بنا لی ہے
میں ہوا کامیاب مر کر بھی
آنکھ قاتل نے وہ جھکا لی ہے
کیا بھروسہ ملیں وہ یا نہ ملیں
ہم نے اک آرزو کما لی ہے
غزل
خود سے اس نے نجات پا لی ہے
نونیت شرما