خود سے اکتائے ہوئے اپنا برا چاہتے ہیں
بس کہ اب اہل وفا ترک وفا چاہتے ہیں
ان کے ایماں پہ رہا ہے تری قدرت کا مدار
یہی عشاق جو معتوب ہوا چاہتے ہیں
ہم کہ خود سوز ہیں جینے نہیں دیتے خود کو
تو میسر ہے تو کچھ تیرے سوا چاہتے ہیں
پتھرو آؤ کہ نادم ہیں شبیہیں خود پر
آئنے اپنی جسارت کی سزا چاہتے ہیں
زندگی ضبط کی قائل ہے کہ سنتی ہی نہیں
ایسے زخموں کی صدائیں جو دوا چاہتے ہیں
غزل
خود سے اکتائے ہوئے اپنا برا چاہتے ہیں
مظفر ممتاز