خود سے نا خوش غیر سے بیزار ہونا تھا ہوئے
ہم کو گرد کوچہ و بازار ہونا تھا ہوئے
جن کی ساری زندگی دربار داری میں کٹی
ان کو رسوا بر سر دربار ہونا تھا ہوئے
ہم میں کچھ رندان خوش اوقات ایسے تھے جنہیں
جانشین جبہ و دستار ہونا تھا ہوئے
ہم کبھی شمشیر جوہر دار تھے لیکن ہمیں
دست ناہنجار میں تلوار ہونا تھا ہوئے
اپنا گھر جی کھول کر تاراج کرنا تھا کیا
اپنے ہاتھوں خود ہمیں مسمار ہونا تھا ہوئے
جن کو ساری زندگی زعم مسیحائی رہا
ان کو آخر ایک دن بیمار ہونا تھا ہوئے
تم سر ساحل ڈبو بیٹھے ہو محسنؔ کشتیاں
جن سفینوں کو سمندر پار ہونا تھا ہوئے
غزل
خود سے نا خوش غیر سے بیزار ہونا تھا ہوئے
محسن احسان