EN हिंदी
خود سے انکار کو ہم زاد کیا ہے میں نے | شیح شیری
KHud se inkar ko ham-zad kiya hai maine

غزل

خود سے انکار کو ہم زاد کیا ہے میں نے

فرحت احساس

;

خود سے انکار کو ہم زاد کیا ہے میں نے
میں وہی ہوں جسے برباد کیا ہے میں نے

ظلم اندھیرے کا تو صورت مری تعمیر کی ہے
روشنی کا ستم ایجاد کیا ہے میں نے

کوئی کرتا ہو جو دیوار فراموشی کو پار
اس سے کہہ دے کہ اسے یاد کیا ہے میں نے

اب نکلتا ہی نہیں اس قفس حل سے کبھی
اسی آغوش کو صیاد کیا ہے میں نے

مل کے شیطاں سے لکھا لی یہ زمیں نام اپنے
پھر اسے ملک خدا داد کیا ہے میں نے

فرحت اللہ کو کھولا ہے بہ انداز غزل
فرحتؔ احساس کو آزاد کیا ہے میں نے

یاد آتی ہے تو پھر سوچ میں پڑ جاتا ہوں
سوچتا رہتا ہوں کیا یاد کیا ہے میں نے

فرد کے لفظ کو تھی کثرت معنی کی تلاش
سو اسے کھول کے افراد کیا ہے میں نے

میری مٹی تو کنواری کی کنواری ہی رہی
جسم کو صاحب اولاد کیا ہے میں نے

اس کے دو حسن ہیں کاریگرئ خاک سے ایک
اور اک وہ جسے ایجاد کیا ہے میں نے

آپ کا ہی تو تھا اصرار کچھ ارشاد کرو
آپ ہی چپ ہیں جو ارشاد کیا ہے میں نے