خود سے اپنا آپ ملایا جا سکتا ہے
تنہائی کا ہاتھ بٹایا جا سکتا ہے
خاموشی جب حملہ آور ہونا چاہے
چوراہے پر شور مچایا جا سکتا ہے
حیرانی کا قرض چکانا پڑ جائے تو
آنکھوں کا احسان اٹھایا جا سکتا ہے
دھرتی پر کچھ سبز رتوں کا بھیس بدل کر
چرواہے کا خواب چرایا جا سکتا ہے
ان کی تیرہ زلفوں سے تشبیہیں دے کر
شب کو راہ راست پہ لایا جا سکتا ہے
نا ممکن ہے پانی پر تصویر بنانا
لیکن اس پر شعر بنایا جا سکتا ہے
بھولا جا سکتا ہے خود کو برسوں برسوں
روز کسی کو یاد بھی آیا جا سکتا ہے

غزل
خود سے اپنا آپ ملایا جا سکتا ہے
سرفراز زاہد