خود پہ وہ فخر کناں کیسا ہے
اس کو اپنے پہ گماں کیسا ہے
کوئی جنبش ہے نہ آہٹ نہ صدا
یہ جہان گزراں کیسا ہے
دل دھڑکنے کی بھی آواز نہیں
سانحہ کاہش جاں کیسا ہے
آج تک زخم ہرے ہیں دل کے
مرہم چارہ گراں کیسا ہے
اس سے نزدیک نہیں ہے کوئی
وہ قریب رگ جاں کیسا ہے
گل کھلا ہی گئی لیلائے بہار
شور آشفتہ سراں کیسا ہے
ہم کڑی دھوپ کے عادی تھے حبابؔ
سر پہ یہ ابر رواں کیسا ہے

غزل
خود پہ وہ فخر کناں کیسا ہے
حباب ہاشمی