خود پر کوئی طوفان گزر جانے کے ڈر سے
میں بند ہوں کمرے میں بکھر جانے کے ڈر سے
یہ لوگ مجھے خون کا تاجر نہ سمجھ لیں
میں تیغ لیے پھرتا ہوں سر جانے کے ڈر سے
ہر سائے پہ آہٹ پہ نظر رکھتا ہوں شب بھر
بستر پہ نہیں جاتا ہوں ڈر جانے کے ڈر سے
میں ٹوٹنے دیتا نہیں رنگوں کا تسلسل
زخموں کو ہرا کرتا ہوں بھر جانے کے ڈر سے
وہ ماں کی محبت کی بلندی تھی کہ اس نے
زندہ ہی نہ چھوڑا مجھے مر جانے کے ڈر سے
کچھ جیت میں بھی فائدہ ہوتا نہیں پھر بھی
وہ جنگ نہیں ہارتا ہرجانے کے ڈر سے
افسردہ حسنؔ ہیں مرے لشکر کے سپاہی
اس تک مرے زخموں کی خبر جانے کے ڈر سے
غزل
خود پر کوئی طوفان گزر جانے کے ڈر سے
حسن عزیز