کہ خود نمائی نہ تشہیر چاہتے ہیں ہم
بس اپنے ہونے کی توقیر چاہتے ہیں ہم
رہائی کا یہی مفہوم ہے ہمارے لئے
پسند کی کوئی زنجیر چاہتے ہیں ہم
یہ دیکھنا ہے کہ رفتار کر رہی ہے کیا
تمام شہر کو تصویر چاہتے ہیں ہم
بہت اداس ہے کوئی پڑوس میں یارو
ذرا سی جشن میں تاخیر چاہتے ہیں ہم
ذرا سی بات جو چھیڑی حقوق کی ہم نے
اٹھا یہ شور کہ جاگیر چاہتے ہیں ہم
ہمیں بنایا گیا ہے ہدف یہ جانتے ہیں
تو کیوں نشانے پہ ہر تیر چاہتے ہیں ہم
یہ توڑ پھوڑ ضرورت ہے کوئی شوق نہیں
نئے سرے سے جو تعمیر چاہتے ہیں ہم
بس ایک قافیہ پیمائی ہم نے کی ہے سہیلؔ
سو اے غزل تری تعزیر چاہتے ہیں ہم
غزل
کہ خود نمائی نہ تشہیر چاہتے ہیں ہم
سہیل اختر