خود نگر تھے اور محو دید حسن یار تھے
ہم کہ اپنے روبرو شیشہ کی اک دیوار تھے
پھر نگاہوں نے بنے تھے چار سو خوابوں کے جال
سو بہ سو پھر رشتہ گر وہم و گماں کے تار تھے
مختصر سا ہے ہمارا قصۂ شوق سفر
ابر آوارہ تھے ہم لیکن سر کہسار تھے
خندہ ریز و گریہ گیں تھی زخم خاطر کی نمود
دور دنیا کے تعین سے مرے آزار تھے
میں سواد دشت تنہائی کا پھلتا پیڑ تھا
سبز زہر بے کسی سے میرے برگ و بار تھے
بجھ گیا تھا دل ہمارا بعد شرح آرزو
جی کی ہم کہنے گئے تو کشتۂ اظہار تھے
رائیگاں تھی اپنی آب و تاب بھی کیا کیا رضیؔ
ہم کہ اک بے معرکہ اور بے عدو تلوار تھے
غزل
خود نگر تھے اور محو دید حسن یار تھے
رضی مجتبی