خود نظاروں پہ نظاروں کو ہنسی آتی ہے
باغبانوں پہ بہاروں کو ہنسی آتی ہے
اب یہ کیوں ذکر بہاراں پہ چمن میں اکثر
پھول تو پھول ہیں خاروں کو ہنسی آتی ہے
مہر و اخلاص کی دنیا میں یہ کیا بات ہوئی
آج یاروں ہی پہ یاروں کو ہنسی آتی ہے
ایسی بے جان سی ہے میرے حریفوں کی ہنسی
جیسے طوفاں پہ کناروں کو ہنسی آتی ہے
کیا کرے آہ وہ بیچارہ مسافر جس پر
آپ کی راہ گزاروں کو ہنسی آتی ہے
کوئی جب چاند ستاروں سے ہو مصروف سخن
کس قدر چاند ستاروں کو ہنسی آتی ہے
خیر ہو خیر مشیت کے ارادوں کی قسم
آج تقدیر کے ماروں کو ہنسی آتی ہے
ہائے کس موڑ پہ آیا ہے اب افسانۂ غم
میرے افسانہ نگاروں کو ہنسی آتی ہے
ہم ہیں محروم مسرت تو کوئی بات نہیں
یہ بھی کیا کم ہے سہاروں کو ہنسی آتی ہے
گردش وقت نے کیا پھر کوئی صورت بدلی
یا یوں ہی وقت گزاروں کو ہنسی آتی ہے
شاید اخگرؔ ہی کی توبہ کی خبر ہے یارو
آج ساقی کے اشاروں کو ہنسی آتی ہے
غزل
خود نظاروں پہ نظاروں کو ہنسی آتی ہے
اخگر مشتاق رحیم آبادی