خود مٹ کے محبت کی تصویر بنائی ہے
اک شمع جلائی ہے اک شمع بجھائی ہے
آغاز شب غم ہے کیوں سونے لگے تارے
شاید مری آنکھوں سے کچھ نیند چرائی ہے
میں خود بھی تپش جس کی سہتے ہوئے ڈرتا ہوں
اکثر مرے نغموں نے وہ آگ لگائی ہے
جب یاد تم آتے ہو محسوس یہ ہوتا ہے
شیشے میں پری جیسے کوئی اتر آئی ہے
ہرچند سمجھتا تھا جھوٹے ہیں ترے وعدے
لیکن ترے وعدوں نے کیا راہ دکھائی ہے
جو کچھ بھی سمجھ لے اب مرضی ہے زمانے کی
شیشے کی کہانی ہے پتھر نے سنائی ہے
مانا کہ محبت ہی بنیاد ہے ہستی کی
نوشادؔ مگر تجھ کو یہ راس کب آئی ہے
غزل
خود مٹ کے محبت کی تصویر بنائی ہے
نوشاد علی