خود مری آنکھوں سے اوجھل میری ہستی ہو گئی
آئینہ تو صاف ہے تصویر دھندلی ہو گئی
سانس لیتا ہوں تو چبھتی ہیں بدن میں ہڈیاں
روح بھی شاید مری اب مجھ سے باغی ہو گئی
فاش کر دیں میں نے خود اندر کی بے ترتیبیاں
زندگی آرائشوں میں اور ننگی ہو گئی
پیار کرتی ہیں مرے رستوں سے کیا کیا بندشیں
توڑ دی زنجیر تو دیوار اونچی ہو گئی
میری جانب آئے پس منظر سے پتھر بے شمار
رنگ دنیا دیکھ کر بینائی زخمی ہو گئی
پڑ گیا پردہ سماعت پر تری آواز کا
ایک آہٹ کتنے ہنگاموں پہ حاوی ہو گئی
کر گیا ہے مبتلائے کرب اور اک سانحہ
اور کچھ دن زندہ رہنے کی تلافی ہو گئی
خواہشوں کی آگ بھی بھڑکائے گی اب کیا مجھے
راکھ بھی میری مظفرؔ اب تو ٹھنڈی ہو گئی
غزل
خود مری آنکھوں سے اوجھل میری ہستی ہو گئی
مظفر وارثی