EN हिंदी
خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں | شیح شیری
KHud main hi guzar ke thak gaya hun

غزل

خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں

جون ایلیا

;

خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں
میں کام نہ کر کے تھک گیا ہوں

اوپر سے اتر کے تازہ دم تھا
نیچے سے اتر کے تھک گیا ہوں

اب تم بھی تو جی کے تھک رہے ہو
اب میں بھی تو مر کے تھک گیا ہوں

میں یعنی ازل کا آرمیدہ
لمحوں میں بکھر کے تھک گیا ہوں

اب جان کا میری جسم شل ہے
میں خود سے ہی ڈر کے تھک گیا ہوں