خود کو تماشا خوب بناتا رہا ہوں میں
قیمت بھی سادگی کی چکاتا رہا ہوں میں
یوں بھیڑ میں تو لٹنا بڑی عام بات ہے
صحرا میں خود کو تنہا لٹاتا رہا ہوں میں
منزل کی جستجو بھی عجب شے ہے دوستو
ٹھوکر سے زخم اپنے لگاتا رہا ہوں میں
کر کے کسی کو خوار بہت ہنستا ہے بشر
سہہ کے ستم بھی خود کو ہنساتا رہا ہوں میں
کرتا تھا جب صباؔ کو زمانہ بھی نامراد
ہمت سے عزم اور بڑھاتا رہا ہوں میں
غزل
خود کو تماشا خوب بناتا رہا ہوں میں
ببلس ھورہ صبا