خود کو نہ اے بشر کبھی قسمت پہ چھوڑ تو
دریا کی تیج دھار کو ہمت سے موڑ تو
اس زندگی کی راہ میں دشواریاں بھی ہیں
رہبر کا ہاتھ چھوڑ نہ رشتوں کو توڑ تو
دنیا کی ہر بلندی کو ہے تیرا انتظار
احساس نارسائی کی گردن مروڑ تو
محنت کے دم پہ کیا نہیں کر سکتا آدمی
اپنے لہو کا آخری قطرہ نچوڑ تو
جو کچھ ہے تیرے پاس وہی کام آئے گا
بارش کی آس میں کبھی مٹکی نہ پھوڑ تو
من کی خوشی ملے گی تو یہ نیک کام کر
ٹوٹے ہوئے دلوں کو کسی طرح جڑے تو
دو گز کفن ہی انت میں سب کا نصیب ہے
اب چھوڑ بھی دنیشؔ یہ دولت کی ہوڑ تو
غزل
خود کو نہ اے بشر کبھی قسمت پہ چھوڑ تو
دنیش کمار