EN हिंदी
خود کو خود پر ہی جو افشا کبھی کرنا پڑ جائے | شیح شیری
KHud ko KHud par hi jo ifsha kabhi karna paD jae

غزل

خود کو خود پر ہی جو افشا کبھی کرنا پڑ جائے

شہپر رسول

;

خود کو خود پر ہی جو افشا کبھی کرنا پڑ جائے
جیسے جینے کی بہت چاہ میں مرنا پڑ جائے

ایسا اک وقت جب آتا ہے تو کیا کرتے ہو
دل جو کرنا نہیں چاہے وہی کرنا پڑ جائے

ہو تو مہتاب کے ہم رقص مگر ایسا نہ ہو
دامن چشم ستاروں ہی سے بھرنا پڑ جائے

جس کو دیکھا نہ کبھی جس کی تمنا بھی نہ کی
پاؤں اسی شہر کے رستے پہ جو دھرنا پڑ جائے

صورت اشک ندامت ہی سہی اے شہپرؔ
میری آنکھوں سے کبھی اس کو گزرنا پڑ جائے