خود کو چھونے سے ڈرا کرتے ہیں
ہم جو نیندوں میں چلا کرتے ہیں
اپنی ہی ذات کے صحرا میں آج
لوگ چپ چاپ جلا کرتے ہیں
خون شریانوں میں لہراتا ہے
خواب آنکھوں میں ہنسا کرتے ہیں
ہم جہاں بستے تھے اس بستی میں
اب فقط سائے ملا کرتے ہیں
لڑکیاں ہنستی گزر جاتی ہیں
ہم سمندر کو تکا کرتے ہیں
آتی جاتی ہیں بہت سی یادیں
دائرے بن کے مٹا کرتے ہیں
غزل
خود کو چھونے سے ڈرا کرتے ہیں
احمد وصی