خود ہی پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے
زمانے سے نبھایا جا رہا ہے
ہماری آنکھوں سے بینائی لے کر
ہمیں منظر دکھایا جا رہا ہے
معانی خاک ہوتے جا رہے ہیں
خیال اتنا پکایا جا رہا ہے
سر منبر اکٹھا ہیں قلندر
فقیری کو بھنایا جا رہا ہے
وہاں سے بھی اٹھایا تھا ہمیں اب
یہاں سے بھی اٹھایا جا رہا ہے
یہاں پہ شعر کہنا یوں ہے جیسے
دیا دن میں جلایا جا رہا ہے

غزل
خود ہی پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے
سنیل کمار جشن