EN हिंदी
خود ہی مل بیٹھے ہو یہ کیسی شناسائی ہوئی | شیح شیری
KHud hi mil baiThe ho ye kaisi shanasai hui

غزل

خود ہی مل بیٹھے ہو یہ کیسی شناسائی ہوئی

شہزاد احمد

;

خود ہی مل بیٹھے ہو یہ کیسی شناسائی ہوئی
دشت میں پہنچے نہ گھر چھوڑا نہ رسوائی ہوئی

سانس تک لینے نہیں دیتا تھا آوازوں کا شور
جب پرندے اڑ گئے سنسان تنہائی ہوئی

لے چلا ہم کو بلندی کی طرف دریا کا خوف
کیا کریں گے ہم پہاڑوں پر اگر کائی ہوئی

اپنی گہرائی کی جانب جھک رہا ہے آسماں
ڈھونڈنے نکلی ہے خود کو آنکھ گھبرائی ہوئی

رات بھر دنیا رہی ہے تیرگی کے سحر میں
صبح کی پہلی کرن آنکھوں میں بینائی ہوئی

پھر گھرا ہوں حلقۂ یاراں میں مجرم کی طرح
پھر کہی ہے داستاں سو بار دہرائی ہوئی

ہاتھ پھیلاؤں تو کس کی سمت اپنا رخ کروں
آسماں دشمن زمیں بندوں سے اکتائی ہوئی

لوگ گلیوں میں نکل آئے ہیں بچوں کی طرح
سر پہ جب ٹوٹے ستارے بزم آرائی ہوئی

سائے کی رنگت فضا کی روشنی میں گھل گئی
اب کے چہروں پر پڑی ہے دھوپ کجلائی ہوئی

آخر کار اپنی آنکھیں پھوڑ لیں تصویر نے
ساری دنیا جب ان آنکھوں کی تمنائی ہوئی

آنکھ سے ہٹتے نہیں گزری ہوئی دنیا کے رنگ
ہم نے ان لمحوں کو ہے زنجیر پہنائی ہوئی