EN हिंदी
خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی | شیح شیری
KHud-farebi ne be-shak sahaara diya aur tabiat ba-zahir bahalti rahi

غزل

خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی

نظیر صدیقی

;

خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی
ایک کانٹا سا دل میں کھٹکتا رہا ایک حسرت سی دل کو مسلتی رہی

اپنے غم کو ہمیشہ بھلایا کئے کثرت کار میں سیر بازار میں
الغرض کسمپرسی کے عالم میں بھی زندہ رہنے کی صورت نکلتی رہی

عقل کی برتری دل نے مانی تو کیا اس نے چاہا کبھی عقل کا مشورہ
دل کو جس طرح چلنا تھا چلتا رہا عقل ہر گام پر ہاتھ ملتی رہی

بزم ہستی میں آنے کو آئے سبھی اہل دل اہل دیں شاعر و فلسفی
آدمی کو جو کرنا تھا کرتا رہا اور دنیا بدستور چلتی رہی

اس کی صورت جو چاہو بدل جائے گی جیسے سانچے میں دھالو گے ڈھل جائے گی
کوئی سانچہ یہاں حرف آخر نہیں زندگی تو ہمیشہ بدلتی رہی

آدمی ساتھ رہنے پہ مجبور ہے پھر بھی اک دوسرے سے بہت دور ہے
دشمنوں سے تو ہوتی بھلا صلح کیا جبکہ خود دوستوں سے بھی چلتی رہی