خود بخود عالم دل زیر و زبر ہوتا ہے
نیچی نظروں میں قیامت کا اثر ہوتا ہے
دید کیا چیز ہے جلووں میں نظر کھو جانا
ورنہ جلوہ کہیں پابند نظر ہوتا ہے
اہل ہمت کے قدم اس سے الگ اٹھتے ہیں
رخ زمانے کی ہواؤں کا جدھر ہوتا ہے
تیری دنیا میں کہیں پر بھی کروں میں سجدہ
تیرا جلوہ تو مرے پیش نظر ہوتا ہے
شرط ہے درد میں ڈوبا ہوا افسانہ ہو
دل تو کیا چیز ہے پتھر پہ اثر ہوتا ہے
جب اٹھاتا ہوں قدم راہ ادب میں شاربؔ
میرے ہم راہ مرا ذوق نظر ہوتا ہے

غزل
خود بخود عالم دل زیر و زبر ہوتا ہے
شارب لکھنوی