خود اپنی یاد دلا کے رلا دیا ہے مجھے
وہ ایک شخص کہ جس نے بھلا دیا ہے مجھے
ترے کرم کا سزاوار میں رہا جب تک
غم حیات نے بھی راستہ دیا ہے مجھے
ہوائے شوق نے تیری تلاش میں اکثر
مثال برگ شکستہ اڑا دیا ہے مجھے
ذرا سی آنکھ لگی تھی جو اپنی آخر شب
ہوائے صبح نے آ کر جگا دیا ہے مجھے
چمن میں تو رہا جب تک گلاب کی صورت
نسیم صبح نے تیرا پتا دیا ہے مجھے
یہ اپنا اپنا مقدر ہے اس کو کیا کہئے
تجھے سراب تو دریا بنا دیا ہے مجھے
بہ رنگ شیشہ تھا پہلے اب ایک پتھر ہوں
نظر سے اپنی جو تو نے گرا دیا ہے مجھے
خیال و خواب کی باتیں خیال و خواب ہوئیں
شعور زیست نے جینا سکھا دیا ہے مجھے

غزل
خود اپنی یاد دلا کے رلا دیا ہے مجھے
اطہر نادر