خود اپنی چال سے نا آشنا رہے ہے کوئی
خرد کے شہر میں یوں لاپتا رہے ہے کوئی
چلا تو ٹوٹ گیا پھیل ہی گیا گویا
پہاڑ بن کے کہاں تک کھڑا رہے ہے کوئی
نہ حرف نفی نہ چاک ثبات درماں ہے
ہر اک فریب کے اندر چھپا رہے ہے کوئی
کھڑی ہیں چاروں طرف اپنی بے گنہ سانسیں
صدائے درد کے اندر گھرا رہے ہے کوئی
گریز آنکھیں لئے جا رہے ہو کمرے میں
جنوں کہ روح سے کب تک بچا رہے ہے کوئی
قدم ہے جذب کہ صحرا ہے رہ گزر، قطرے
حروف دل کی طرح ڈالتا رہے ہے کوئی
جو خوشبوؤں کے تھپیڑے بدن سے ٹکرائیں
تو اسلمؔ ایسے میں کب تک کھڑا رہے ہے کوئی
غزل
خود اپنی چال سے نا آشنا رہے ہے کوئی
اسلم عمادی