خود اپنی آنچ سے اک شخص جل گیا مجھ میں
یہ میں نہیں ہوں تو پھر کون ڈھل گیا مجھ میں
یہ کس نے چھید کے رکھ دی مری انا کی سپر
یہ کون تیر کی مانند چل گیا مجھ میں
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار رہنے لگا
پھر ایک بار یہ پتھر پگھل گیا مجھ میں
یہ آئنے میں مرے عکس کے سوا کیا تھا
کہ ایک شخص اچانک دہل گیا مجھ میں
کچھ ایسے حبس بھرے روز و شب ملے مجھ کو
کہ ایک پائے کا فن کار گل گیا مجھ میں
کسی طرف سے سہارا ملا نہ جب کوئی
تو ایک ڈولتا انساں سنبھل گیا مجھ میں
دھنک کے رنگ بھلا کون چھو سکا ضامنؔ
یہ آج کیوں مرا بچپن مچل گیا مجھ میں
غزل
خود اپنی آنچ سے اک شخص جل گیا مجھ میں
شفیع ضامن