EN हिंदी
خود اپنے آپ سے ہم بے خبر سے گزرے ہیں | شیح شیری
KHud apne aap se hum be-KHabar se guzre hain

غزل

خود اپنے آپ سے ہم بے خبر سے گزرے ہیں

حمید ناگپوری

;

خود اپنے آپ سے ہم بے خبر سے گزرے ہیں
خبر کہاں کہ تری رہ گزر سے گزرے ہیں

نفس نفس ہے معطر نظر نظر شاداب
کہ جیسے آج وہ خواب سحر سے گزرے ہیں

نہ پوچھ کتنے گل و نسترن کا روپ لئے
بہار نو کے تقاضے نظر سے گزرے ہیں

بہار خلد بہ ہر گام ساتھ ساتھ رہی
ترے خیال میں کھوئے جدھر سے گزرے ہیں

اماں ملی بھی جو ان کو تو تیرے دامن میں
وہ کارواں جو مری چشم تر سے گزرے ہیں

دلوں پہ چھوڑ گئے نقش اپنی یادوں کا
تمہارے درد کے مارے جدھر سے گزرے ہیں

حسیں ہو تم کہ تمہاری کوئی مثال نہیں
حسین یوں تو ہزاروں نظر سے گزرے ہیں

حمیدؔ پوچھ نہ آشوب دہر کا عالم
ہزار فتنۂ محشر نظر سے گزرے ہیں