خود اپنے آپ پہ ایسے عطا ہوا ہوں میں
صدی کے سب سے بڑے جرم کی سزا ہوں میں
لہولہان ہے چہرہ وجود چھلنی ہے
صدی جو بیت گئی اس کا آئنہ ہوں میں
عجیب عالم آہ و بکا ہے میرا وجود
تڑپتے چیختے لمحوں کا مرثیہ ہوں میں
عجیب سا مرے سینے میں اک تلاطم ہے
کہ موج موج سمندر بنا ہوا ہوں میں
کبھی تو وقت کی سرحد کے پار اتروں گا
کہ بوند بوند سمندر کو پی رہا ہوں میں
شفیقؔ اب کوئی احساس کیا جھنجھوڑے گا
نگہ سے گرتے ہی پتھر کا ہو گیا ہوں میں
غزل
خود اپنے آپ پہ ایسے عطا ہوا ہوں میں
شفیق عباس