کھویا کھویا اداس سا ہوگا
تم سے وہ شخص جب ملا ہوگا
قرب کا ذکر جب چلا ہوگا
درمیاں کوئی فاصلہ ہوگا
روح سے روح ہو چکی بد ظن
جسم سے جسم کب جدا ہوگا
پھر بلایا ہے اس نے خط لکھ کر
سامنے کوئی مسئلہ ہوگا
ہر حماقت پہ سوچتے تھے ہم
عقل کا اور مرحلہ ہوگا
گھر میں سب لوگ سو رہے ہوں گے
پھول آنگن میں جل چکا ہوگا
کل کی باتیں کرو گے جب لوگو
خوف سا دل میں رونما ہوگا

غزل
کھویا کھویا اداس سا ہوگا
بلراج کومل