EN हिंदी
کھویا کھویا رہتا ہے | شیح شیری
khoya khoya rahta hai

غزل

کھویا کھویا رہتا ہے

انجم لدھیانوی

;

کھویا کھویا رہتا ہے
جانے کیا کر بیٹھا ہے

بستی میں اک پھول کھلا
محلوں محلوں چرچا ہے

رفتہ رفتہ اترے گا
چڑھتی عمر کا دریا ہے

اڑتی گھٹا کو کیا معلوم
صحرا کتنا پیاسا ہے

آج کے انساں کی منزل
عورت شہرت پیسہ ہے

بٹیا بھی سسرال گئی
طوطا بھی چپ رہتا ہے

چل انجمؔ گھر لوٹ چلیں
صحرا میں کیا رکھا ہے