EN हिंदी
کھویا ہوا تھا حاصل ہونے والا ہوں | شیح شیری
khoya hua tha hasil hone wala hun

غزل

کھویا ہوا تھا حاصل ہونے والا ہوں

زکریا شاذ

;

کھویا ہوا تھا حاصل ہونے والا ہوں
میں کاغذ پر نازل ہونے والا ہوں

چھوڑ آیا ہوں پیچھے سب آوازوں کو
خاموشی میں داخل ہونے والا ہوں

خود ہی اپنا رستہ دیکھ رہا ہوں میں
خود ہی اپنی منزل ہونے والا ہوں

مجھ کو شریک محفل بھی کب سمجھیں وہ
میں جو جان محفل ہونے والا ہوں

جانے کیا کہہ جائے گا ڈر لگتا ہے
آئینے کے مقابل ہونے والا ہوں

روح سلگتی اور پگھلتی جاتی ہے
ایک بدن میں شامل ہونے والا ہوں

آخر کب تک اپنے ناز اٹھاؤں شاذؔ
آج اپنا ہی قاتل ہونے والا ہوں