کھونے کی بات اور نہ پانے کی بات ہے
بس زندگی کا ساتھ نبھانے کی بات ہے
نفرت کی آندھیوں سے نہ حل ہوگا مسئلہ
جو آگ لگ چکی ہے بجھانے کی بات ہے
اس کا حقیقتوں سے نہیں کوئی واسطہ
سچ بات اب تو صرف فسانے کی بات
تم مسکرا بھی سکتے نہیں کیا مرے لیے
یہ تو کسی کے کام نہ آنے کی بات ہے
ہم نے خیال میں بھی نہ رکھی کبھی رئیسؔ
وہ بات جو کسی کو ستانے کی بات ہے

غزل
کھونے کی بات اور نہ پانے کی بات ہے
رئیس صدیقی