کھولی جو ٹک اے ہم نشیں اس دل ربا کی زلف کل
کیا کیا جتائے خم کے خم کیا کیا دکھائے بل کے بل
آتا جو باہر گھر سے وہ ہوتی ہمیں کیا کیا خوشی
گر دیکھ لیتے ہم اسے پھر ایک دم یا ایک پل
دن کو تو بیم فتنہ ہے ہم اس سے مل سکتے نہیں
آتا ہے جس دم خواب میں جب دیکھتے ہیں بے خلل
کیا بے بسی کی بات ہے یارو نظیرؔ اب کیا کرے
وہ آنے واں دیتا نہیں آتی نہیں یاں جی میں کل
غزل
کھولی جو ٹک اے ہم نشیں اس دل ربا کی زلف کل
نظیر اکبرآبادی