کھولے گا راز کون تری کائنات کے
لالے پڑے ہوئے ہیں یہاں اپنی ذات کے
یوں روئی سے خیال کو رکھتا ہوں کات کے
اڑتے پھریں روئیں نہ کہیں میری بات کے
سب منتظر ہیں ایسی کسی اپنی مات کے
کھل جائیں سب بھرم کسی راہ نجات کے
سنتا ہوں مجھ سے مانگتی ہے موت بھی پناہ
وہ پرخچے اڑائے ہیں میں نے حیات کے
خود کو سمیٹنے کے بکھیڑے میں کیوں پڑے
کاہے کو ہو کے رہ نہ گئے حادثات کے
ان آندھیوں پہ زور چمن کا تو کچھ نہ تھا
قصے بکھر گئے ہیں مگر پات پات کے
کم یہ بھی تو خلاؤں میں تخلیق سے نہیں
جیسے محل کیے ہیں کھڑے مشکلات کے
اس سے زیادہ ریت کے طوفان تجھ میں ہیں
جھرنے تری نگاہ میں جتنے ہیں ذات کے
نوحہ کناں ازل سے اندھیروں میں ہیں صدائیں
یہ دکھ تو ہیں صداؤں کی بس ایک رات کے
ٹکراؤ بے سبب جو نظر اور دل کا تھا
افسانے سب نے گھڑ لیے ایک رات کے
سچ سچ بتا کہ تلخؔ یہ دل کی نوا میں یوں
کیسے کیے ہیں جمع یہ دکھ کائنات کے

غزل
کھولے گا راز کون تری کائنات کے
منموہن تلخ